غلام سرور اپنی شاعری کے آئینے میں

عبد المتین جامیؔ
اردو بازار۔ڈاکخانہ پدما پور
ضلع۔کٹک
موبائل۔9938905926
ہاشمی خاندان کے چشم و چراغ یہ تازہ کار شاعر ۸؍جون ۱۹۸۳ء کو گوپال گنج بہار میں پیدا ہوئے۔تعلیم ایم اے تک حاصل کی ۔سرِ دست درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔موصوف نے ۱۹۹۹ء میں جس وقت کہ ما بعد جدید کا عہد تقریباًختم ہونے کو تھاشاعری شروع کی ۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں بے پناہ مشق ومزاولت کی وجہ سے شاعری کے رموز و نکات سے کافی حد تک معلومات حاصل کر لی ہیں۔ ان کی شاعری کے چند حصے جو ہمارے ہاتھ لگے ہیں‘ان کے مطالعہ سے یہ ضرورپتہ چل جاتا ہے کہ ان کو ابھی بہت سی منزلیں طے کرنی ہیں۔ یوں تو وہ ہندوستان کے مختلف ادبی رسائل میں بلا ناغہ شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مزید مشق سخن کی منازل سے آگے نکل چکے ہیں۔بہر حال بہت ہی سُریلی آواز کے مالک غلام سرور ہاشمی فی الواقع مشاعروں کی روح رواں سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن مشاعروں میں بے انتہا کامیاب شاعر کبھی کبھی سنجیدہ ادباء و شعراء کی نظر میں مقام بنا نے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔بطور خاص فی زمانہ مشاعروں کا جو حال ہے یاجو معیار ہے اس کے مطابق گزشتہ دہائیوں کے مشاعرہ باز شاعروں کی ایک بڑی تعداد نے ان مشاعروں کو منفی رخ دے دیا ہے ۔ مرحوم بیکل اُتساہی کے علاوہ مزید کئی شعراء جو اپنے عہد کے کامیاب فن کار کہلاتے تھے موجودہ دور کے مشاعروں کے رنگ و ڈھنگ سے نالاں رہے تھے متعدد ادبی رسائل و جرائد میں ان نوٹنکی مشاعروں اور ان کا انعقاد کرنے والے منتظمین غیر ادبی کارکردگی کو منظرِ عام پر لاچکے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔کئی حضرات تو یہاں تک  کہتے نظر آتے ہیں کہ مشاعرہ باز شعرا دوسروں سے کلام لکھوا کے اپنے ترنّم کا جادو جگاتے ہیں اور ہزاروں روپے اینٹھ لیتے ہیں۔ بعض شعرا یا شاعر ہ دیو ناگری رسم الخط میں کلام لکھوا کر مشاعروںکو لوٹ لیتے ہیں۔ان باتوں کے پیشِ نظر کہا جاسکتا ہے کہ اردو زبان و ادب نیز اردو کی تہذیب کے لئے یہ رجحان سم قاتل سے کم نہیںہے۔بہر کیف ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ غلام سرور مذکورہ بالا مشاعرہ باز شاعروں میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں اپنے ہی بل پر لکھتے ہیں ۔نت نئے خیالات کو اپنی پیش کردہ شاعری کا موضوع بنا کر اردو شاعری کو مزید مالامال کرنے میں مصروف ہیں۔مجھے سعید رحمانی صاحب(مدیراعلی ادبی محاذکٹک) کے توسط سے غلام سرور 

صاحب کی غزلوں کے چند اشعار دیکھنے کو ملے۔یہ بات سچ ہے کہ صرف ۱۴؍۱۵؍ غزلوں کے مطالعہ سے کسی شاعر کی شاعری کے رجحان کا مکمل احاطہ ممکن نہیں ہے۔تا ہم میرے مطالعہ میں آئی ہوئی غزلوں میں شاذ و نادر ہی ایسے اشعار ملے جن کو مشاعرہ باز شاعروں کے چربہ سمجھا جائے۔ 
اکیسویں صدی کی شاعری میں ابھرنے والے تقریباً سبھی رجحانات موصوف کی شاعری میں موجود نظرآئے۔ یعنی اکیسویں صدی کی شاعری میں نہ ہی مکمل طور پر جدیدیت حاوی ہے اور نہ ہی ترقی پسندی ‘ بلکہ موجودہ دور میں پیش آنے والے تمام مسائل کا ذکر آج کی شاعری پر حاوی نظر آتا ہے۔ اس صدی کی شاعری میں جہاں فرقہ پرستی کا ذکر ملتا ہے وہیں فرقہ پرستی کے خلاف احتجاج کا لہجہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ قدم قدم پر منڈلاتے مختلف نوع کے خطرات کا ذکر ملتا ہے وہیں کسی غیبی طاقت پر ایمان کا جذبہ بھی کارفرما نظر آتا ہے جس کے زیر سایہ مایوس انسان کو بھی نئی زندگی جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔
جدید یت کے تمام بڑے رجحانات میں سے ایک بہت ہی مذموم رجحان دہریت کا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ ہمارے شعرا اس سے اجتناب برتنے لگے ہیں۔گزشتہ صدی میں بعض دہریت پسند عناصر نے لکھ دیا تھا کہ ’’نعوذ باللہ ‘‘خدا کی موت ہو گئی ہے۔لیکن اکیسویں صدی میں ان دہریوں میں بھی مذہبی رجحانات  کا احیا ہونے لگا ہے ۔ہم فی الحال امریکہ سے لے کر یورپ‘افریقہ اور ایشیا کے تمام ممالک کے عوام میں مذہبی بیداری کا رجحان دیکھ رہے ہیں۔مگر فسوس کی بات ہے کہ یہی رجحانا ت اقوام کو ایک ڈور میں باندھنے کے بجائے ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑا کر رہے ہیں۔ ہر قوم میں انتہا پسندی اپنے عروج پر نظر آنے لگی ہے ۔نتیجتاً ہر جگہ انتشار پسندی کا رجحان سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں کی جانے والی شاعری میں ان باتوں کا اثر پڑنا ہی تھاسو پڑ رہا ہے۔ہر کوئی اللہ کے دربار میں دست بستہ دعا کر رہا ہے اور بعض لوگ سارے مصائب سے بچنے کے لئے ماں کی دعا کاسہارا لے رہے ہیں۔ امن و امان کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پربرادرانہ تعلقات استوار ہوں۔دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بھی مل جاتا ہے‘آخرت اور جنت کا ذکر بھی۔ ان تمام باتوں سے یہی خیال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں میں کچھ مثبت سوچ جگہ لے رہی ہے‘ ٹھیک ہے لیکن ان مثبت سوچوں کا جس فن کارانہ انداز سے اظہار ہونا چاہئے وہ تقریباً ہو نہیں پا رہا ہے۔
میں نے غلام سرور ہاشمی کی شاعری میں کچھ نئی باتوں کا سراغ پا یا ہے اس لئے اتنا کچھ لکھ دیا۔ موصوف کے کلام میں ناصحانہ انداز بھی پایا جاتا ہے ‘لیکن یہ بات یاد رہے کہ شاعری کو پند ونصائح کا پٹارہ بنا دینا شاعری کی روح کو مجروح کرتا ہے ۔غلام سرور کے یہاں  بھی کچھ ایسے اشعار پائے جاتے ہیں۔مثلاً:
رہے ہندو مسلماں سکھ عیسائی میں نہ کچھ دوری
محبت کا حسیں گلشن کھلانے کی ضرورت ہے 
بات تو اچھی ہے لیکن شاعری اسے کہتے ہیں جو اپنے قارئین کے جذبوں کو بر انگیختہ کردے۔ کیا اس شعر میں اپنے منشا کی کوئی بات ہے؟ یا اس شعر کو لیجئے:
جو ہے خالق ہمارا اور ہے رب دوعالم بھی
اسی کے آستاں پر سر جھکانے کی ضرورت ہے
اس قسم کے اشعار قارئین کے ذہن میں ایک واعظ کو لاکر کھڑا کر دیتے ہیں جو ان کو اپنے واعظ و نصیحت سے ایک جہاں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔اس کے برعکس یہ شعر اپنے قاری کے دل میں کسک چھوڑنے میں ضرور کامیاب ہوتا ہے کہ :
زندگی کے نحیف کاندھے پر
لاش حسرت کی میں اُٹھاتا ہوں
مرے دل سے تری چاہت کا مٹنا غیر ممکن ہے 
رہے گی میری آنکھوں میں تری تصویر مدت تک
مال و زر کی یہ ہوس رکھتا ہے اپنے دل میں کیوں
بعد مرنے کے بتا تو ساتھ کیا لے جائے گا
دل کاسکون لوگوں کو دینے کے واسطے 
خود چھاؤں بن کے دھوپ میں جانا پڑا مجھے
مندرجۂ بالا تینوں اشعار یقیناً اپنے سنجیدہ قارئین کے دل میں اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔میں نے مذکورہ بالا سطور میں جس کا ذکر کیا ہے کہ موجودہ دور میں لا یقینیت کی صورت حال کے تحت اکثر و بیشتر شعرا’’ماں‘‘کی دعا کے ذریعہ خدائے واحد کی پناہ کے طلب گار ہوتے ہیں۔غلام سرور بھی کہتے ہیں:
رہتی ہے سدا ماں کی دعا بن کے محافظ
نزدیک مرے کوئی بلا تک نہیں آتی
یا لوگوں کے دلوں میں عام طور پر پائے جانے والے بغض و عداوت کے جذبوں کے جواب میں آج کے تقریباً ہر شاعر کے یہاں صلہ رحمی کا جذبہ پایاجاتا ہے ۔سرور صاحب کہتے ہیں:
ہم رسم محبت کو نبھاتے ہی رہیں گے
دشمن کو گلے سے بھی لگاتے ہی رہیں گے
تا ہم ان کی شاعری میں کہیں کہیںروایتی موضوعات کے تحت وارداتِ قلبی نیز ہجر و وصال کے جذبے کی کارفرما ئی بھی نظر آتی ہے۔بطور مثال دو شعر کو ہی دیکھیں:
اک نظر ہی مجھے دیکھا ہے مگر جانِ جگر
۔مجھ کو لگتا ہے کہ برسوں سے ہے ناطہ اپنا 
عشق میں پھاڑ دیا جیب و گریباں اپنا
وہ نظر آتے ہیں اب پیار میں پاگل کی طرح 
موجودہ عہد کی تمام ترنا ہمواریوں میں سے بطور خاص آج کی زہریلی فضا  ہر کس وناکس کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ہر طرف انسانی خون کا دریا بہتا نظر آتا ہے۔ایسے میں ایک حساس شاعر کا دل کیا چاہتاہے ملاحظہ فرمائیے:
شہر میں بہتے لہو کی ندیوں کو دیکھ کر
دل کھنچاجاتا ہے اپنا آج صحرا کی طرف
میں ایسے ایک انسان دوست شاعر غلام سرور ہاشمی کے لئے خداوند قدوس سے دعا کرتا ہوںکہ ان کی شاعری اسی طرح ارتقائی منزلیں طے کرتی رہے۔اس کے ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دینا چاہوں گا کہ وہ مشاعرے میں جو کچھ 



پڑھیں شعری لطافت کو مجروح نہ ہونے دیں بلکہ اپنی اصلی شاعری کو وہی جہت عطا کریں جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی شاعری فکری صلابت اوربالیدہ نظری کا نمونہ بن جائے گی۔
٭٭٭  
SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment

0 comments:

Post a Comment