ترانہ جاوید۔ایک تاثراتی مطالعہ

ڈاکٹر محفوظ الحسن(گیا)
عبد المتین جامی اڑیسہ کے کہنہ مشق شاعر ہیں۔مجھے یاد آرہاہے کہ غالباً بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ان سے ان کے صوبے میں دید و شنید ہوئی تھی۔ کچھ سالوں تک خط و کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ان ہی دنوں ایک شعری مجموعہ‘‘نشاط آگہی‘‘ پر میرا تبصرہ شائع ہوا تھا۔اس کے بعد عبد المتین جامی سے رسالوں میں ضرور ملتا رہا لیکن ان کی کوئی کتاب مجھے نہیں ملی۔چند دنوں قبل ڈاک سے ایک کتاب ملی’’ترانۂ جاوید‘‘۔نام درج تھا عبد المتین جامی بھیجنے والے کا۔ جو خود مصنف/خالق/شاعر ہیں۔ ایک مدت کے بعد نے میں انھیں فون کیا اور شکریہ ادا کیا۔ 
’’ترانہ ٔجاوید‘‘رباعیوں کا دیوان ہے ۔اردو میں پہلی کوشش نہیں ہے۔ صرف اور صرف رباعیوں کے مجموعے تو مختلف شعرا کے منطر عام پر آتے رہے ہیں مگر رباعی کا دیوان ناوک حمزہ پوری کا بھی ہے جسے میں نے نہ دیکھا ہے اور نہ پڑھا ہے۔اس کے پہلے بھی رباعیوں کے دو مجموعے جامیؔ کے شائع ہو چکے ہیں جو میری نظر سے نہیں گزرے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ان دونوں مجموعوں میں شامل رباعیاں بھی اس میں ہیں یا بالکل الگ ہے اور اس میں شامل رباعیاں صرف اسی میں ہیں دوسری جگہ نہیں۔
رباعیوں پر کچھ گفتگو کی جائے اس کے پہلے عبد المتین جامیؔ کے بارے میں کرامت علی کرامت ؔکی رائے نقل کرنا ضروری ہے تاکہ جامیؔ کی فن کاری کے میدان کا صحیح صحیح علم ہو سکے۔
پروفیسر کرامت علی کرامت امجد نجمی کے بعد آج کے اڑیسہ کے بابائے اردو ہیں‘ صحافی ہیں‘شاعر ہیں‘منفرد فکر کے ناقد ہیں ۔جامی ؔکے مجموعہ رباعیات ’’بساط سخن‘‘،اور ’’مونس سخن‘‘کی روشنی میں انھوں نے جامیؔ کی جو ادبی تصویر بنائی ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہیں۔
’’عبد المتین جامی عجیب و غریب مخلوق ہیں ‘شاعری ‘تنقید‘ افسانہ‘ناول‘ ڈرامہ‘منظوم تمثیل‘ خاکہ‘ انشائیہ‘ جاسوسی ناول‘ اڑیا اور بنگلہ کے ادب عالیہ کا ترجمہ غرض کہ ادب کا کون سا قابل ذکر شعبہ ہے جو ان کی تخلیقی اور فنی دسترس سے باہر ہے۔ صرف شاعری ہی کا میدان لیجئے تو آپ کو دیکھ کر یقیناً تعجب ہو گا کہ غزل پابند نظم‘آزاد نثری نظم‘ غزل نما‘ترائیلے‘ سانیٹ‘ دوہا‘دوہا غزل‘ رباعی گو یا ہر اہم صنف سخن میں انھوں نے اپنے اشہبِ قلم کو مہمیز کیا ہے ۔عبد المتین جامیؔ کو بلا شبہ ایک ہمہ جہت(versatile) شخصیت کا مالک قرار دیا جا سکتا ہے‘‘۔ (ترانہ جاوید صفحہ ۷) ۔  

اس سے پہلے کہ میں جامی کی رباعیات کی موضوعات کی پیش کش اور مظامین کے برتنے کے فن پر کوئی گفتگو کروں رباعی کے بارے میں چند باتیں عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں نیز ماہر عروضیوں سے گزارش ہے کہ میرے ان مصروفیات کا تشفی بخش جواب دیں۔میں نے بہت پہلے ابراہیم اشک کی رباعیوں پر گفتگو کرتے ہوئے جو کچھ لکھا تھا وہ یہاں نقل کر رہا ہوں۔
’’رباعی‘‘عربی لفظ ہے اس کا مادہ ر‘ب‘ع‘ہے۔ربع کے معنی چوتھائی کے ہوتا ہے ۔ادبی اصطلاح میں رباعی شاعری کی ایک صنف ہے ‘ایسی صنف جو چار مصرعوں پر مشتمل ہو۔ اس شرط کے ساتھ کہ اس کا پہلا ‘دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ و ہم ردیف ہو‘چاروں مصرعوں کے اوزان اور بحر ایک ہو‘‘۔
بحر و وزن کی بات آگئی ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ عروض دانوں نے اس صنف کے لئے بحر مخصوص کردی ہے اور وزن بھی ‘(یعنی رباعی کے لیے بحر ہزج کی ۲۴؍ زحافات مخصوص ہیں۔بعضوں نے اس کی تعداد سینکڑوں بتائی ہے)۔میں عروض سے اتنا واقف نہیں مگر جو تھوڑی بہت نصابی شد بد حاصل ہے اس کی بنا پر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ عروضیوں کی اس زیادتی نے اس صنف میں شاعروں کے لئے تجربات کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ اس طرح ان کی اختراعی قوت پر قدغن لگادی گئی ہے۔اگر کسی عالی ظرف فن کار اور عظیم شاعر نے اس حد بندی کو نا منظور کرتے ہوئے بحر و وزن کی پابندی سے انحراف کرتے ہوئے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے تو اسے صنف رباعی ماننے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ رباعی کے لئے ہزج کی سالم بحروں کے استعمال کی بھی اجازت عروضیوں نے نہیں دی ہے۔ جب شاعری کی دوسری اصناف مثلاً قصیدہ‘غزل‘مثنوی‘مرثیہ وغیرہ کے لئے کسی مخصوص بھر و وزن کی قید نہیں تو پھر رباعی کا شاعر اس قید و بند کی صعوبت کیوں برداشت کرے؟ اس آزادی کے زمانے میں جب غزل آزاد ہوگی‘ نظم آزاد ہوگی‘ حتیٰ کہ نثر آزاد ہوگی ‘رباعی کا شاعر لکیر کا فقیر ہی بنا رہے ؟(ماخوذاز مطالعہ ص ۲۴)۔
رباعی کے تعلق سے شہاب جعفری کی رباعی پر اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا:
’’رباعی اپنے مخصوص اوزان کی وجہ سے بے حددشوار صنف کہی جاتی ہے۔گو ہر عہد میں ا س پر طبع آزمائی ہوتی رہی ہے مگر اس صنف میں کمال حصول 
بے حد دشوار رہا ہے ۔اس صنف میں کامیابی اسے ہی حاصل ہوتی ہے جس کو قدرت نے شاعرانہ وجدان سے نوازا ہوتا ہے اور جس کے اندر حکیمانہ بصیرت ہوتی ہے‘جس کا مطالعہ گہرا اور ہمہ گیر ہوتا ہے‘جس کا مشاہدہ تیز اور جس کا ادارک و شعور پختہ اور تجربات کی دنیا متنوع ہوتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اسے فنی باریکیوں پر عبور ہوتا ہے۔(ماخوذ از مطالعہ ص۲۲) 
رباعی اور جامیؔ کی رباعی کے مضامین ‘موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کرامت علی کرامت نے لکھا ہے۔
’’اس میں کلام نرم و ونازک کی بھی گنجائش ہے اور تلخ واردات کی حقیقت بیانی بھی۔ عبد المتین جامی ؔکی رباعیوں میں مذکورہ دونوں قسم کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ ان کے یہاں کہیں اخلاقیات ‘امن پسندی ‘بشر دوستی‘ کے پیغام سے لبریز رباعیاں نظر آتی ہیں تو کہیں فلسفۂ حیات‘اور تصوف کی عکاسی کرتی ہوئی اور کہیں طنز کے نشتر چبھوتی ہوئی یا پھر خالص غزل کی طرح واردات قلبی کا جام چھلکاتی ہوئی رباعیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘(ترانہ جاویدص۹۔۸)
ان موضوعات کے تحت پیش کردہ مثالوں کی طور پر جن رباعیوں کو نقل کیا گیا وہ ’ترانہ جاوید میں شامل نہیں۔ممکن ہے ’بساط سخن‘اور ’مونس سخن‘ میں ہوں۔ قمر سنبھلی مونس سخن کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’عبد المتین کے یہاں موضوعات کی بہتا ت ہے ۔نئی نئی ردیفوں اور مشکل قوافی میں جس روانی کے ساتھ وہ رباعی کے تخلیقی عمل سے گزر رہے ہیں حیرت ہو تی ہے۔حمد و نعت اور دیگر مذہبی موضوعات کے ساتھ تہذیبی‘ اخلاقی‘ معاشی‘ سماجی ‘ وطنی‘ معاشرتی‘ حسن و عشق‘ ہجر و وصال‘انسانی قدرہی‘ ادائی امتیازات اور جدید عصری تقاضوں کی حامل رباعیات غور و فکر کا مطالبہ کرتی ہیں‘‘۔(ترانہ جاوید ص ۱۳)
یہ باتیں موصوف نے ’مونس سخن‘کے حوالے سے لکھی ہیں۔اور مثال بھی مونس سخن کی رباعیوں کے ہی پیش کی گئی ہے۔شارق عدیل نے جامی کو ’’رباعی کا مزاج داں شاعر کہا ہے ان کی رباعیوں اور تیرائلے کی جو مثال دی ہے وہ بھی اس دیوان کی زینت بنی ہیں ۔ان کے دیوان میں شامل کیے گئے تینوں مضامین اہم ہیں اور جامی کی رباعی گوئی اور ان کی فن کارانہ مہارت کی شہادت ضرور ہیں مگر مجھے اس کتاب میں ان کی شمولیت کا جواز سمجھ میں نہیں آیا۔
اس دیوان میں شامل رباعیوں کے تعلق سے اگر کچھ گفتگو ہو تی تو اس کا جواز تھا مگر میں ذاتی طور پر اس کا بھی حامی نہیں ہوں ۔اس قسم کی تحریروں کی شمولیت کا قاری فن کار کے بارے میں آزادانہ رائے قائم نہیں کر سکتا۔ اور اس کی اپنی ذاتی رائے تحفظات کا شکار ہو جاتی ہے۔جامیؔ جیسے فن کار کو تو کسی بناؤ سنگار یا سفارش کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بہر کیف ان کے’ ’ترانہ آزاد‘ ‘پر کچھ باتیں کرلی جائیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ ’’بساط سخن‘‘ کی رباعیوں کی تعداد کتنی ہے۔مونس سخن کے بارے میں قمر سنبھلی کی اطلاع ہے کہ ۴۶۵؍اس میں شامل ہیں۔یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ان ہی بساط سخن کی بھی رباعیاں ہیں یا یہ بالکل الگ رباعیاں ہیں۔
رباعیوں کے دیوان ’ترانہ جاوید‘ میں شامل رباعیوں کی تعداد۳ ۷۳؍ اور اگر ان کی آزاد رباعی کے اختراعی تجربے کو بھی شامل کر لیا جائے تورباعیوں کی مجموعی تعدا د ۳۴۵؍ ہوتی ہے ۔یہ آزاد رباعیاں مونس سخن میں شامل ہیں‘یہ اطلاع خود جامی کی ہے۔
زود گوئی‘قدرت کلامی پر دال ہوتی ہے مگر معیار کی ضمانت بھی ہوتی ہے یہ دعویٰ کے ساتھ نہیں کہا جاسکتاہے‘مگر عبد المتین جامی کی کثرت رباعی گوئی پر فنی لحاظ سے کسی نے گرفت نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کے معیار فن پر حرف گیری‘ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فی زمانہ جن رباعی گو شاعروں کو درجہ استناد حاصل ہے ان میں عبد المتین جامی بھی ہیں‘ کثرت کے ساتھ فنی معیار پر بھی قابو پانا حیرت انگیز ضرور ہے اور جامی کی رباعیاں بقول ماہرین فن اس حیرت انگیزی کی خوبصورت مثال ہیں۔ دیوان میں جو رباعیاں شامل ہیں ان میں مجھے حسن و عشق کی رعنائیاں ‘شراب و شباب کی انگڑائیاں ‘ہجر و وصال کی کربناکی وطرب ناکی کا براہ راست بیانیہ انداز و اظہار نظر نہیں آتا۔ اشاروں اشاروں میں کسی کی کوئی جھلک ملتی بھی ہے تو کوئی جادو ئی اثر نہیں دکھا تی ہے ۔کبھی کبھی یہ بھی احساس بار بار ہوا کہ ان میں آمد کم اور آورد زیادہ ہے۔ اورایک دیوان مرتب کرنے میں ایسا ہونا لازمی ہے۔آج کے تناظر(ملکی‘ ملی‘ و بین الملی‘ دوامی)میں اگر ان رباعیوں کا مطالعہ کیا جائے تو عہد حاضر کا منظر نامہ ‘ دادا گیری‘دہشت زدگی‘ اخلاق و اقدار کی زوال آمادگی ‘خارجی سماج کی بخشی ہوئی آلائشیں ‘نسوانی آزادی کی مغربی تشہیر اور گھر کی زینت کا بازار کی جنس بننے کا منظر نامہ یعنی سیاست‘ معاشرت‘ تہذیب و ثقافت کی بدلتی تصویر ہی ان رباعیوں میں دیگر موضوعات کے ساتھ بڑی خوبی‘خوبصورتی ‘زبان کی صفائی‘ سادگی اور شگفتگی کے ساتھ نظر آتی ہے‘جن کے اثرات کے ہم آج دامن بچانا بھی چاہیں تو نہیں بچا سکتے کہ کسی نہ کسی شکل میں یہ جراثیم ہماری تہذیب و ثقافت‘معاشرت و معیشت میں گھس پیٹھ کر چکی ہیں اور فی الوقت ان کے تدارک کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کے مسائل سے گھری زندگی اندرون و بیرون ملک دہشت ووحشت کے لیبل کے ساتھ بھی ان رباعیوں کو فن کارانہ انداز میں پیش کی گئی ہیں۔ انتخاب الفاظ میں خوش سلیقگی اور ان کی پیش کش میں ہمدردی کی زیریں لہر میں حالات کی بہتری کی امید سے دانستہ نظر مثبت انداز فکر ان رباعیوں میں ورق ورق میں بکھرا ملے گا۔
مختلف مضامین اور موضوعات کی حامل چند رباعیاں پیش ہیں۔مگر پہلے دو حمد و نعت :
اللہ ہے کا مہر تخیل سمجھا تخلیق کا ہے کیسا تسلسل سمجھا
باغی ترے بندے ہیں تو ان پہ کریم کیا تیرا ہے انداز تحمل سمجھا 
٭
میں بھول کے سب سود و زیاں آ پہنچا۔و اللہ بتا میں یہ کہاں آ پہنچا
یہ شہر مدینہ کی گلیاں جامیؔ۔اک نور کا دریا ہے جہاں آ پہنچا

اور یہ دورباعیاں جس میں آج کی انسانی زندگی کا کرب اور معاشرتی زندگی کی مثبت و منفی سوچ کو درشایا گیا ہے۔
پھیلا ہے جہاں تک آسمان دیکھا۔حیرت کا ہے نشان جہاں تک دیکھا
جس سمت بھی اُٹھی ہیں نگاہیں مری۔دکھ درد کا ہے نشان جہاں تک دیکھا
٭
فردا کے خوابوں کا گھروندا ٹوٹا تھا بھائی پہ اپنا جو بھروسہ ٹوٹا
جامی سہ رہا ہے پہلے کا جواز گر حال سے خود اپنا رشتہ ٹوٹا
عہد حاضرہ کا ننگا سچ بھی ملاحظہ کریں:
اترا ہے زمیں پر یوں ٹی وی کا عذاب۔ لاکھوں بچے ہوئے دنیا میں خراب
یکسوئی سے سب دیکھتے ہیں ننگا ناچ ۔باقی نہ رہا والد و دختر میں حجاب
عورت کی اصل تصویر بھی ملاحظہ ہو:
اللہ نے کیا خوب بنائی عورت۔اوصاف حمیدہ سے و با پر فطرت
مغرب نے مگر اس کیا ہے بے شرم۔وہ گھر نہیں کوٹھے کی ہے ہی زینت 
آخر میں دوتین جملے رباعی کے وزن میں کئے گئے جامی ؔ کے تجربات کے تعلق سے عرض کردوں تو بیجا نہ ہوگا ۔جہاں تک سانیٹ اور ترائلے کا سوال ہے یہ دونوں اصناف یورپی ادب سے تعلق رکھتی ہیں لہٰذا ان کے لئے کسی بھی بحر میں سرپٹ دوڑنے کی گنجائش بر قرار ہے کہ عروض دانوں نے اس کے لئے بھی مخصوص وزن کی قید نہیں لگائی ہے۔ جہاں تک رباعی کی آزادی کا سوال ہے اس کی قبولیت اور عدم قبولیت کا انحصار عروضیوں کی اجازت پر ہے کہ لنگڑاتی ہوئی رباعی کو وہ کتنا قبول کرتے ہیں یہ اور بات ہے کہ اس کی بحر رباعی والی ہی ہے اور وزن بھی ۔مگر کیا ایک مصرعے ہی کے ارکان کی کمی گوارا کر کے وہ آزادی رباعی کو دینے کو آمادہ ہوں گے؟ عبد المتین جامی کی اختراعی کوشش کے لئے میدان کھلا ہوا ہے ۔شرط ہے اپنی اختراعات کو منوانے اور سند دلوانے کی ۔میری نیک خواہشات ۔۔۔۔جامی ؔکے ساتھ ہیں۔   
٭٭٭  
منیر ؔسیفی
Samanpura.MalikLane
B.V.C Patna-800014

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment

0 comments:

Post a Comment