دوسو روپے

ملیالی کہانی
افسانہ نگار۔ تھاکاجی شیو شنکر پلّائی
مترجم۔عبد المتین جامیؔ


(۷۱ ؍سالہ ملیالم ناول نگار اور افسانہ نگار ’’تھاکاجی ‘‘کو ادب کے سب سے بڑے اعزاز ’’گیان پیٹھ‘‘سے نوازا گیا تھا۔ ۱۹۶۱ء؁ میں ان کے ناول چمپئن سے ان کو بین الاقوامی شہرت ملی اس کو ساہیتہ اکاڈمی کے ایوارڈسے نوازا گیا تھا۔ بہت سی غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے۔تھاکا جی نے تقریباً ۳۵؍ ناول اور پانچ سو افسانے لکھے ہیں ۔زیر نظر افسانہ ’’دوسوروپے‘‘معرکتہ الآرا افسانوں میں سے ایک افسانہ ہے۔جس کو اردو قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کیا جا رہا ہے)




   جب گوبند پلّائی کی عمر ساٹھ سال کی ہو گئی تو اس کو ٹریزری آفس سے ریٹائرمنٹ اور پنشن کا حکم نامہ مل گیا۔ٹریزری آفس میں اس کا کام تھا ریزگاریوں کو بستوں سے نکا ل کر میزان میں رکھ کر وزن کرنا پھر ان ریزگاریوں کو چودہ تھاکوں میں سجا کر رکھ دینا ۔ان تھاکوں میں سے ہر ایک تھاک کی قیمت کیا ہوتی تھی کتنے پیسے ہوتے تھے اتنے دنوں سے کام کرتے کرتے اس کو اتنا تجربہ ہو گیا تھا کہ بستے کے اندر ہاتھ بھر کر اندازاًاتنا ہی پیسہ از خود نکال لاتا تھا جتنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ پینتیس برسوں سے روز انہ گیارہ بجے سے پانچ بجے تک تانبے کے سکوں کا دھندا کرتے کرتے اس کا چہرہ بھی تانبے کی طرح کا ہوچکا تھا۔ زندگی بھر اس نے کوئی کروڑ روپے کے سکّوں کو اس طرح سے وزن کیا ہو گا۔اپنے دفتر سے پائے گئے زرد کوٹ کو زیب تن کر کے وہ اپنے دفتر کو روز آیا کرتا تھا۔اپنے کوٹ کے نیچے اس کو شرٹ پہننے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔اس کے کوٹ کے بٹن تو ٹوٹ کر گر پڑے تھے۔ نیا بٹن لگانے کے لئے اس کے پاس فرصت نہیں تھی۔سیفٹی پن لگا کر کام چلا لیتا تھا۔ وہ ٹریزری کے تیرہ و تاریک کمرے کے اندر سکّو ں کو وزن کرتا رہتا تھا۔وہ دفتر کی ایک ایسی جگہ بیٹھتا تھا جہاں سے وہ کسی کو دیکھ سکتا تھا اور نہ کوئی اسے دیکھ سکتا تھا۔اس کی پینتیس سالہ ملازمت کے دوران اس دفتر میں بہت سی تبدیلی واقع ہوئی تھی ۔کتنے نئے چہرے آئے اور گئے لیکن پیسے کوڑی کے لین دین میں کئی لوگ بدلے مگر پلّائی نہیں بدلا اور نہ اس کی جگہ بدلی۔دفتر کے ایک کونے میں وہ ریزگاریاں وزن کرتا رہا۔نہ تو دفتر کا کوئی آدمی اس سے بات کرتا تھااور نہ ہی دنیا میں اس سے بات کرنے والا کوئی آدمی تھا۔دفتر میں ہر وقت شور مچا رہتا‘سکّوں کی ٹھنٹھناہٹ سنائی دیتی رہتی۔ اس وقت دفتر میں کام کرنے والے لوگ اپنے کاموں میں لگے رہتے۔کوئی اس کی طرف مُڑ کر کیوں دیکھتا ۔پانچ بجتے ہی سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیتے۔
        اس روز گوبند پلائی ہر روز کی طرح دفتر کی طرف چل پڑا۔پاجا کے قریب اوَ ر بریج 

کی طرف سے چھوٹی سی گلی مغرب کی سمت جاتی ہے۔اس راستے سے نصف کوس کا راستہ ہے۔اس کے بائیں سمت ایک خستہ حالت میں ایک پھوس کا مکان ہے۔اس مکان کے چھوٹے سے کمرے میں ایک طرف لکڑی کے تختے پر لکھا ہوا ہے’’ شیاء ہو ٹل‘‘۔گوبند پلائی یہیں رہتا ہے۔پلائی کے علاوہ اور بھی پانچ آدمی مستقل طور پر اس ہوٹل میں رہتے تھے۔چار پولیس کے کانسٹبل اور ایک شخص محکمۂ آب کاری کا ملازم ۔ مگر ان لوگوں کے سا تھ جان پہچان نہیں ہو پائی کیونکہ گوبند نے ان لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کئے تھے۔پلّائی دن بھر میں مشکل سے دوچار بات کرتا تھا۔ہوٹل کی دیکھ بھال کرنے والی لکشمی اماں کے کھانے چنتے وقت اگر بہت ضرورت پڑتی تو پلّائی کی زبان سے نکل پڑتا تھاایک گلاس پانی یا اور ذرا کھانا۔
 بس اتنی سی باتیں اس لکشمی کے علاوہ اور کسی کے ساتھ نہیں کرتا تھا۔ اس کا نام گوبند پلّائی تھا اور یہ نام اس کو کس نے دیا ‘اس کا گھر کہاں ہے‘اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ لکشمی اماں بولتی ہے کہ آج گوبند پلائی بیس سال پہلے بھی ویسا ہی تھا۔اس کے پاس نہ کبھی کسی کا خط آتا اور نہ ہی وہ کسی کے پاس خط بھیجتا تھا۔ ہر معمول کے مطابق بستر سے اٹھتا‘کھا پی کر وہی پُرانا پھٹا کوٹ پہن کر روز کی طرح دفتر چلا جاتا۔ملازمت کے چالیس سالوں کے درمیان اس کی طبیعت کبھی خراب نہیں ہوئی۔اس لئے وہ اس دوران دفتر میں کبھی غیر حاظر نہیں رہا۔ اس روز بھی وہ دفتر کو چل دیا۔
ٹریزری کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے پیر رک گئے ۔لوگ اندر جا رہے تھے اور پھر باہر آ رہے تھے۔گوبند نے اندر دیکھا  پچھلے چالیس سالوں سے جہاں بیٹھ کر وہ سکّوں کو وزن کرتارہا تھا آج ایک لڑکا سکّے وزن کر رہا تھا۔پلّائی وہیں برآمدے میں بیٹھ کرستون سے ٹیک لگا کر اونگھنے لگا۔ وہ بھول گیا تھا کہ ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔
کچھ دیر بعد اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔کسی پاگل کی طرح وہ جلدی جلدی قدم بڑھاتا ہوا تیز بھنت پورم کی گلی کی طرف چل پڑا۔پہلے وہ اس گلی کی طرف کبھی نہیں آیا تھا۔شیو سیام ہوٹل سے دفتر اور دفتر سے ہوٹل ہوتے ہوئے اس کی زندگی گزر گئی تھی۔وہ ایک چوک پر پہنچا ۔بجلی کی روشنی سے وہ جگہ روشن ہو گئی تھی ۔چاروں طرف وہ گھوم گھوم کر دیکھنے لگا ۔لوگ اس کے پاس سے جلدی جلدی چلے جا رہے تھے ۔کاریں بور کر دینے والی آواز دیتی ہوئی گزرتی جا رہی تھیں ۔رات کے دس بجے بھی یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ان لوگوں کے لئے کون انتظار کر رہا ہو گا۔گوبند پلّائی سوچ رہا تھا ۔بارہ بج گئے ہر طرف سنّاٹا ہو گیا۔گوبند 
کھلے آسمان کے نیچے راستے پر اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔
اچانک بارش ہو گئی۔ گوبند بارش میں بھیگ گیا۔ لیکن بارش کی ہر بوند سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ زندگی میں پہلی بار وہ کھلی ہوئی دنیا کو اپنے اندر محسوس کر رہا تھا۔گوبند ہوٹل کے پاس آگیا۔ ہوٹل بند ہو گیا تھا۔ اس کے لئے اتنی رات گئے کون انتظار کرے گا۔ لکشمی اماں کو بلائے گا کیا؟کیا حق ہے اس کو بلانے کا؟ وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا رہا۔
رات بھر بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اسے بخار آگیا۔وہ اپنے کمرے کے اندر چارپائی پر لیٹا رہا۔ کبھی کبھی بے ہوشی بھی طاری ہوجاتی۔ایک روز لکشمی اماں نے اس کے کمرے میں داخل ہو کر آواز دی ۔انّا اس کھانے سے ایک مٹھی کھالو۔ وہ لکشمی اماں کی طرف کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔’’میں مر جاؤں گا‘‘اپنی آنکھوں میں بلا کا درد بھر کر اس نے کہا۔ 
وہ سوچ رہا تھا کس کو اس کے لئے غم ہو گا؟ وہ جب مر جائے گا اس کی روح کے سکون کے لئے کون دو قطرے آنسو بہایے گا۔
گوبند پلّائی کی متاعِ حیات اگر کچھ تھی تو بس پُرانا ٹرنک۔وہ ٹرنک اس کے کوٹ کی طرح پُرانا تھا۔ ساٹھ سال سے اس کے اندر پس انداز کیا ہوا دوسوروپے تھا۔ جس کو اس نے تھوڑا تھوڑا کر کے جمع کیا تھا۔ دوسوروپے کسے دے گا؟کون پائے گا وہ روپے۔ کون ہوگا حق دار؟وہی انجان حق دار شاید اس کے لئے روئے گا۔ اسی دوسوروپے کے عوض اس کے لئے شاید آنسو بہائے گا۔ 
اس روز کھاتے وقت پولیس والے نے لکشمی اماں سے دریافت کیا ‘یہ شخص مر جائے گا لکشمی اماں۔اس کو لے کر کسی خیراتی اسپتال میں ڈال آؤ ورنہ آگے چل کر اس کے لئے تو پریشانی میں پھنس جائے گی۔
لکشمی اماں نے کچھ نہیں کہا۔دوسرے نے پوچھا ‘کیا حقیقتاً کوئی نہیں ہے؟
کیا پتہ؟ میں تو جب سے ہوٹل چلا رہی ہوں تب سے وہ اس ہوٹل میں ہے۔لکشمی اماں نے جواب دیا۔بے چارہ!
اس روز کھانے کے برتن کو لے کر لکشمی اماں اس کے کمرے میں گئی تو پلاّئی نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔مجھے اسپتال بھیج دو ورنہ میں یہیں مر جاؤں گا۔ لکشمی اماں کے اندر کی نرم دلی کو گوبند کے الفاظ چھو گئے۔ 
اس نے پوچھا‘انّا ۔کیا تمھارا کوئی نہیں ہے؟ ۔اسے کریدنے کی نیت سے گوبند نے اماں کی طرف دیکھا اور کہا ۔ہاں ! ہے ‘ جو ابھی میرے سرہانے بیٹھ کر رورہی تھی۔وہی۔
        کون؟ کہاں انّا؟میں تو کسی کو دیکھ نہیں رہی ہوں۔لکشمی اماں نے حیرت سے کہا۔ 
         گوبند کچھ دیر خاموش رہ کر بولا حقیقتاً تم لوگ مجھ کواسپتال بھیج دو گے؟
          نہیں انّا نہیں۔تم یہاں بیس سالوں سے ہو ۔تم کو میں اسپتال نہیں بھجوں گی۔
        اس طرح بخار میں تپتے ہوئے پلّائی نے لکشمی اماں سے پوچھا!میرے مرجانے سے تم روؤگی کیا؟ 
کیوں مرنے جینے کی بات کرتے ہو تم؟تم بہت جلد اچھے ہو جاؤگے۔گوبند پلّائی کے اندر سے ایک لمبی سانس خود بخود نکل گئی۔
گوبند پلّائی کی طبیعت سنبھل گئی مگر ایک ہی بات اس کے دل میں بیٹھ گئی کہ وہ ایک دن مرجائے گا۔اس کے دوسوروپے کا کوئی حق دار نہیں ہے۔وہ مرجانے سے اس کے لئے آنسو بہانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
      ایک روز صبح اٹھ نے کے بعداپنا پرانا کوٹ پہن کر باہر نکل پڑا۔ کبھی کبھی تو وہ اس ہوٹل کو بالکل ہی نہیں آیا۔اس کی دنیا ابھی وسیع سے وسیع تر ہونے لگی تھی۔لکشمی نے پوچھاانّا کہاں گئے تھے۔
وہ چُپ رہا ۔ ایک مرتبہ چار روز بعد ہوٹل لوٹا۔اس کی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھیں اور اس کے قدم ڈگمگانے لگے تھے۔اس روز کھانا دیتے وقت لکشمی اماں نے پوچھا۔ انّا تم نے شراب کیوں پی؟ کبھی تو پیتے نہیں تھے۔پلّائی ہڑبڑا گیا۔اس نے اماں کی طرف ترچھی نظروں سے دیکھا ۔یکایک اس کے ایک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر گنگنانے لگا۔ لارے۔لپّا ۔لا ۔تھوڑی دیر بعد کہا میرا کوئی نہیں ہے میں اکیلا ہوں۔
اوہ۔ لکشمی اماں نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا۔پلّائی نے بڑی سختی سے اس کے ہاتھ کو پکڑ رکھا تھا۔نشہ کے عالم میں وہ بول رہا تھا۔بیس سالوں سے ۔۔۔۔جب میں مر جاؤں گا۔ 
لکشمی نے سوچا پلّائی نشے میں مدہوش ہوچکا ہے۔
۔۔۔۔تم میری بیوی ہو۔۔۔۔ 
        لکشمی اماں ہنس پڑی اور اس کی ہنسی سے پلّائی کا دل ٹوٹ گیا۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں۔وہ ایک کرسی پر کچھ دیر تک بیٹھا رہا۔اتنی دنوں بعد اس کو احساس ہوا کہ اتنے دنوں سے ٹریزری آفس میں ملازمت کرنے والا گوبند پلّائی فقط ایک مشین نہیں تھا۔اس کا منہ لوہے سے بنا ہوا نہیں ہے۔اس کے بھی جذبات ہیں۔چھوٹی سی چھوٹی بات سے بھی اس کے چہرے کا تاثر بدل سکتا ہے۔ اس کی زبان سے پیار و محبت کے الفاظ نکل سکتے ہیں۔ اس کے جسم میں بھی خون ہے‘ گوشت ہے اور اس کو بھی ایک روز مرنا ہے۔زندہ لاش کی مانند وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اور پھر باہر چلا آیا۔ پاس والے گھر سے لکشمی اماں کے ہنسنے کی آواز ویسے ہی سنائی دے رہی رتھی۔گوبند پلّائی ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ 
چار روز بعد جب گھر لوٹا تو پولیس والا کھانے بیٹھا تھا‘ لکشمی اماں اس کے قریب بیٹھی ہوئی اور بڑے پیار سے اس کو کھانا کھلا رہی تھی۔
گوبند پلّائی نے دیکھا کہ اس کو دیکھتے ہی پولیس والا اور لکشمی اماں جان بوجھ کر ہنسنے لگے۔ وہ راستے پر دوڑ کر بھاگ آیا۔ وہ دونوں اور بھی زور سے قہقہے لگارہے تھے۔ 
زندگی بھر کی کمائی میں سے کاٹ کاٹ کر وہ دوسوروپے اس نے اس عورت 
کے لئے جمع کیا تھا جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے آنسو بہائے گی۔مگر اچانک وہی سکّے پگھلنے لگے تھے۔ اب وہ تین چار دنوں میں گھر آنے لگا تھا۔ ایسا ہی کئی ماہ تک ہوتا رہا۔ 
اس درمیان لکشمی اماں کا ایک لڑکا بھی پیدا ہوا۔ تقریباً دو ہفتے باہر گھومنے کے بعد گوبند پلّائی گھر لوٹ آیا۔ اس پولیس والے نے گوبند سے پوچھا
کیا لکشمی اماں راضی ہوئی؟
پلّائی خاموش رہا ۔لکشمی اماں نے اس پولیس والے سے دس سال قبل ہی شادی کر لی تھی۔ لیکن بیس سالوں سے اس ہوٹل میں رہتے ہوئے بھی گوبند کو اس کی خبر نہیں ہوئی تھی۔ اس روز وہ دن بھر شراب پیتا رہا۔جس روز اس کو ریٹایرمنٹ کا حکم نامہ ملا اس کی عمر ساٹھ سال کی ہوچکی تھی۔مگر آج وہ خود کو جوان محسوس کر رہا تھا۔
ایک روز شام کو وہ ہوٹل آیا اور سال ہا سال سے جمع کردہ دوسوروپے کے سکوں کو دیکھنے کی غرض سے ٹرنک کھولا مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ ٹرنک کے اندر ایک بھی سکّہ نہیں تھا۔اس روز کے بعد سے گوبند پلاّائی کو کسی نے نہیں دیکھا۔
٭٭٭
SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment

0 comments:

Post a Comment