نامِ کتاب۔شورِ عنادل (شعری مجموعہ)

نامِ کتاب۔شورِ عنادل         (شعری مجموعہ)
      شاعر۔ڈاکٹر کلب حسن حزیں      مبصر۔عبد المتین جامیؔ


مجھے ایک بات کا خیال آتے ہی تحیّر آمیز مسرت حاصل ہوتی ہے کہ سائنس جو کہ صرف حقائقِ تخلیقات کے انکشاف میں مصروف رہنے والا موضوع ہے اور اس کے طالب علم یا علماء صرف حقیقت یعنی ہر نظرآنے والی شے کے اندر پوشیدہ رہنے والی چیز وں کی تلاش میں رہتے ہیں‘شاعر کیسے بن جاتے ہیں۔اس بات کا مشاہدہ ہم نے فارسی کے عظیم سائنس داں نیز شاعر خیام کے اندر کیا۔آج کے دور میں بھی کئی ایسے عظیم شاعر و نقاد و نیز اردو کے جید عالم موجود ہیں جن کا تعلق ریاضی یا اس طرح کے دوسرے خشک موضوعات سے ہے ۔ڈاکٹر کلب حسین حزیں کے متعلق میرا گمان تھا کہ وہ شاید اردو کے استاد رہ چکے ہیں اور شاعر بھی ہیں۔لیکن ’’شورِ عنادل‘‘میں لکھے گئے تقریظ میں شرافت حسین صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ کلب حسین حزیں صاحب ان کے معالج رہ چکے ہیں جو کہ ان دنوں مختلف جسمانی  امراض کا شکار ہو کر اپنے دولت کدے ہی میں مقید ہو چکے ہیں۔ بہر کیف ان کی اپنی شاعری کے سلسلے میں خود کلب حزیں صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ انھیں سمجھنے میں کافی مدد کرتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے سلسلے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی شاعری میں ادب برائے زندگی کا التزام ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں تخلیقی مضمرات اور فنی لوازمات جو شاعری کا جزولانیفک ہے‘ مفقود ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تا ہم ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہر شعر میں جوش و ولولہ کا طوفان موجیں مار رہا ہے۔ جو کہ ظلمتوں سے اور بورژوائی طاقتوں سے ٹکرانے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔اس میں زندگی کی دھڑکنیں ہیں ‘آسودگی ہے ‘ساتھ میں مجبور افراد کی آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے آنسو ہیں اورخوشیوں اور غموں کی آنکھ مچولی بھی ہے۔بہر کیف ہم ان کی شاعری میں انھیں کے دعویٰ کردہ موضوعات کی تلاش کرنے کی سعی کریں گے۔
ناچیز پہلے ہی اس بات کا اعادہ کرنے کی جسارت کرتا ہے کہ موصوف کا یہ دعویٰ کہ ان کی شاعری ادب برائے زندگی کی قائل ہے‘کس حد تک غلط ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً
تنہا جو چھوڑ کر گیا غم کے حصار میں۔اس بے وفا کا آج بھی کیوں انتظارہے
ان کا تو دل پگھل نہ سکا میری بات سے۔حالانکہ میں نے اشک کے دریا بہا دیے
بلبلیں باغ میں گریہ کرتی رہیں۔گل کو بادِ صبا جب مسلتی رہی 
اوپر درج کئے گئے اشعار کی طرح پچاسوں اشعار پائے جاتے ہیں جن میں وہی گل و بلبل اور ساقی و شراب جیسے فرسودہ خیالات کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔بہر حال ان کی غزلیں چاہے خود ان کے دعوے سے مطابقت نہ رکھتی ہوں پڑھنے سے مگر تعلق رکھتی ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب کو اپنی کتاب شائع کرنے سے قبل کسی اچھے استاد شاعر کو دکھا نا چاہئے تھا۔کیونکہ انھوں نے اپنی غزلیں کہتے وقت کئی خاص بحروں کے استعمال میں غلطیاں کردی ہیں۔ایک مصرع کسی ایک بحر میں تو دوسرا مصرع کسی اور بحر میں کہہ دیا ہے۔
میں نے ان کی غزلوں کے مجموعے میں کوئی اٹھارہ جگہ بحر و اوزان کی غلطیاں دیکھیں۔اس مختصر سے تبصرے میں ان کی تفصیل لکھنے سے قاصر ہوں۔ البتہ جو چھوٹی چھوٹی بحروں میں ان کی غزلیں ہیں بہت اچھی ہیں لیکن بحر مضارع یا بحر ہزج کو گڈ مڈ کرکے انھوں نے جو غزلیں کہی ہیں ان میں بھی غلطیوں کی بوچھار ہو گئی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ وہ اس بات کا خاص خیال رکھیں گے۔تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیشتر غزلیںوارداتِ قلب اور مجروح محسوسات وجذبات کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں اور لائقِ مطالعہ بھی ہیں۔دعا ہے کہ مجموعے کو قبولیتِ عام 
حاصل ہو ۔قیمت ہے دوسو روپے اور شاعر کا پتہ:۔محلہ سکراول(ایسٹ)۔ٹانڈہ۔امبید
کر نگر۔224190(یو۔پی)
SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment

0 comments:

Post a Comment